ہیپاٹائٹس اور اونٹنی کا پیشاب اور دودھ و جدید سائینس
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں درج ذیل حدیث مروی ہے ۔
عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدینۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابلفیشربومن ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی
صلحت أبدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686 )
’’ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہواموافق نہ آنے پر وہ لوگ
بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے
لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ‘‘۔ حافظ ابن قیم ؒ نے بھی
اسی حدیث کے حوالے سے اپنی کتاب زادالمعاد میں لکھا ہے کہ اونٹنی کے تازہ دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینا بہت سے امراض کے لئے
شافی دوا ہے ۔ قارئین کرام ! بعض لوگوں کی جانب سے اس حدیث پر اعتراض شاید اس وجہ سے کیا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جوکہ حرام ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل
ہے ۔اس اعتراض کے دو جوابات ہیں 1)نقلاً(2)عقلاً۔
قرآن مجید میں حلال وحرام سے متعلق کچھ اشیاکا ذکر ہوا ہے
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ الْمَیتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَآ أُہِلَّ بِہِ لِغَیرِ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ ۔آیت 172)
’’ تم پر مردار ،خون ، سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے ‘‘
اللہ تعالیٰ نے بالکلیہ اصولی طور پر مندرجہ بالا اشیا کو اہل ایمان پر حرام کر ڈالا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کچھ استثنابھی کردیا ۔
فَمَنِ اضْطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلٓا إِثْمَ عَلَیہِ ط
’’جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف)ہوجائے تو اس پر (ان کے کھانے میں)کوئی گناہ نہیں بس وہ حد سے بڑھنے والا
اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ‘‘(سورۃ البقرۃ ۔آیت 173)
اگرضرورت کے وقت حرام جانوروں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے تو حلال جانور کے پیشاب کو عندالضرورت دوا کے لئے استعمال
کرنے کو کس نے روکاہے ؟جب مردار اور حرام جانوروں کو عندالضرورت جائز قرار دیا گیا ہے تو پھر پیشاب کے استعمال میں کیا پریشانی ہے
؟ بعض لوگ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پرکھنے کے لئے خود ساختہ اصول پیش کرتے ہیں کہ “ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے ” تو
گزارش ہے کہ قرآن میں توکسی بھی مقام پر اونٹنی کے پیشاب کو حرام قرار نہیں دیا گیا ۔لہٰذا یہ حدیث قرآن کے متعارض نہیں ہے ۔
خلاصہ:جس طرح اضطراری کیفیت میں قرآن حرام اشیا کی رخصت دیتا ہے اسی طرح حدیث نے بھی اونٹنی کے پیشاب کو اس کے دودھ
میں ملاکر ایک مخصوص بیماری میں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ۔
کیمسڑی کے اُ صولوں کو بھی مدنظر رکھیں
اگر آپ کو واقع ہی کیمسٹری کے اصول یاد ہیں تو آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ دو مختلف کیمیکلزکے ملنے سے ایکشن اور ری ایکشن ہوتا
ہے۔ یاد دہانی کے لئے میں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں پانی کے لئے H2O ہائیڈروجن کے دو مالیکیول اور اکسیجن کا ایک مالیکیول مل کر
پانی بنتا ہے نیلا تھوتھا زہر ہے اور آپ کو پتہ ہو گا کہ اگر نیلا تھوتھا کی قلمیں بنا لی جائیں تو پھر نیلا تھوتھا سے زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور
اسے پھرکچھ بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے “سوڈیم” اسے اگر کھولیں تو ہوا سے آکسیجن ملتے ہی اسے آگ لگ جاتی ہے
، اور ” سوڈیم کلورائیڈ” جو ہم روزانہ کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔ انسان کو کچھ نہیں ہوتا اونٹنی کے دودھ میں “ پوٹاشیم ” بہت زیادہ
ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹین، آئرن، فیٹ، پانی، فاسفورس ، کیلشیم، اور وٹامن سی، کیکٹوس/قدرتی مٹھاس اور ڈیوریٹک/پیشاب آور،
ہوتے ہیں۔ اب دودھ کے اندر پائی جانے والے یہ کیمیکلز جن کو لال رنگ سے مارکنگ کی ہے اگر انہی کو سامنے رکھیں تو پیشاب کے
پائے جانے والے ٹاکسس کے اثر کو ختم کرنے کے لیئے یہی کافی ہیں۔کیمسٹری فارمولہ کے مطابق اونٹنی کا پیشاب اس وقت تک
پیشاب رہے گا جب تک وہ دوسرے اجسام کے ساتھ نہیں ملا، جونہی اونٹنی کا پیشاب اونٹنی کے دودھ میں شامل ہوا تو پھر دونوں اجسام
میں پائے جانے والے کیمیکلز سے جو ری ایکشن ہو گا اس سے پیشاب نام اور مقام کھو بیٹھے گا۔ اور ایک الگ مکسچر بنے گا۔
اس پر اگر دل میں ایک بات اور آئے تو وہ بھی کلیئر کر دیتا ہوں۔ کہ پانی کے ایک گلاس کو میٹھا کرنے کے لئے چینی کی کچھ مقدار/ ایک
چمچ ڈالی جاتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پانی کے ایک گلاس میں چینی کا ایک گلاس ڈالا جائے۔ اسی طرح دودھ میں پیشاب ملا کر پینے کا
مطلب یہ نہیں کہ دودھ کے ایک گلاس اور پیشاب کا ایک گلاس بلکہ دودھ کے ایک گلاس میں پیشاب کی کچھ مقدار جو کہ ڈراپس بھی ہو
سکتے ہیں اور چمچ بھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ہائیڈروجن کے دو مالیکول اور آکسیجن کا ایک مالیکیول ان کو اکٹھا کریں تو دونوں اپنی شناخت کھو
بیٹھتے ہیں اور اس سے جو تیسری چیز بنتی ہے جسے ہم پانی کہتے ہیں۔
جدید سائنس کے ذریعے علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید
عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز
(Ascites) کہا جاتا ہے ۔یہ انتہائی موذی مرض ہے ۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر
کے سوراخ کیا جاتا ہے ۔اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ
سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے ،اس عمل کا دورانیہ 6سے 8ہفتہ ہے(اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل
برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ حالت میں نے خود کراچی کے
ہسپتالوں میں ان وارڈز کے دورے کے دوران دیکھی ہے)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی
نکالا جاتا ہے ۔یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے ۔ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے (Short
Practice of Surgery page 698-703 & 948-950) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرالقرون میں اس بیماری کا
علاج اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا جو کہ آج بھی کار آمد ہے ۔ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر
فرماتے ہیں ’’ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور
پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔ (علاج نبوی اور جدید سائنس جلد
3بابAscites) محترمہ ڈاکٹر فاتن عبدالرحمٰن خورشیدکا سعودی عرب کی قابل سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ یہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی
فیکلٹی ممبر ہونے کے علاوہ کنگ فہد سنٹر میں طبی تحقیق کے لیے قائم کردہ Tissues Culture Unit کی صدر ہیں ۔ وہ میڈیکل
ڈاکٹر تو نہیں ہیں تاہم اسی حدیث سے متاثر ہو کر انہوں نے اس پر تحقیقی کام کیا اور اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملا کر کینسر سے متاثرہ
افراد کو پلایا ۔ انہوں نے لیب کے اندر اپنے ان تجربات اور ریسرچ کوسات سال تک جاری رکھا اور معلوم کیا کہ کہ اونٹ کے پیشاب
میں موجود نانو ذرات کامیابی کے ساتھ کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس دوا کا معیار انٹرنیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کی شرائط کو پورا
کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو کیپسول اور سیرپ کی شکل میں مریضوں کو استعمال کروایا ہے اور اس کا کوئی نقصان د ہ سائیڈ
ایکفیکٹ بھی نہیں ہے۔ محترمہ ڈاکٹر خورشید صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ اونٹنی کے دودہ اور پیشاب کو مخصوص مقدارون میں ملا کر مزید تجربات
کے ذریعے اپنی دوا کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی توجہ اس جانب مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ اسی دوا سے کینسر کی بعض مخصوص
اقسام جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، خون کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر، دماغ کے ٹیومر اور چھاتی کے کینسر کا علاج تسلی بخش طریقے سے کیا
جاسکے۔
ماخذ:۔
http://www.saudigazette.com.sa/index.cfm?method=home.regcon&contentID=2009071143333