کیا حجر اسود حادثات کا شکار ہوتا رہا ؟
جی ہاں تاریخ بتاتی ہے کہ کم و بیش 6 مرتبہ حجر اسود کے ساتھہ ایسے واقعیات پیش آئے جنھیں ہم حادثات کا نام دے سکتے ہیں –
حادثات کی یہ تعداد حتمی نہیں لیکن تاریخ کی کتابوں میں درج نمایاں حادثات کی تعداد بہر حال 6 ہے – آئیے ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے
ہیں جنّت سے بھیجے گیے اس پتھر کو سب سے پہلے سیدنا ابراھیم علیہ سلام نے کعبہ مشرفہ کے اس کونے میں نصب کیا جہاں آج بھی آپکو
یہ نظر اتا ہے1جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبیلہ ” جرہم ” کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے دخل ہوتے ہوے کعبہ میں
رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھہ ” حجر اسود ” کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبوراً یمن کی جانب
کوچ کر گیے الله تعالی کی حکمت دیکھیے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے تک زم زم کے کنویں میں نہیں رہا – جس وقت بنو جرہم کے لوگ حجر اسود کو
زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے ایک عورت نے انھیں ایسا کرتے دیکھ لیا تھا – اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کے
کنویں سے بازیاب کرا لیا گیا 2 ابو طاہر نامی شخص کی قیادت میں نے مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریباً سات
سو انسانوں کو قتل کیا اور زم زم کے کنویں کو اور مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی لاشوں اور خون سے بھر دیا – اسکے بعد اسنے مکّہ کے لوگوں
کی قیمتی اشیا کو اور کعبہ مشرفہ میں رکھے جواہرات کو غضب کر لیا – اس زمانے میں عقیدت مند سونے , چاندی کی اشیا چڑھاوے اور نذرانے
کے طور پر کعبہ میں رکھتے تھے – اسنے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر اپنے پیروکاروں میں تقسیم کر دیا – کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اسکے
سنہری پر نالے کو اکھاڑ ڈالا اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور 7 ذلحج 317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کردیا
اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اسکو موجودہ دور میں جو علاقہ ” بحرین ” کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا یہ حجر اسود کا ایک نہات تکلیف دہ دور تھا
– تقریباً 22 سال؛ حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا – اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا
اس کا استلام کر تے تھے – ( استلام کے معنی لبوں سے بوسہ دینے کے بجائے دور سے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو چوم کر ہتھیلیوں کا حجر اسود
کی جانب اشارہ کرنا ہوتا ہے ) پھر الله سبحان و تعالی کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذلحج 339 ہجری کو” سنبر بن حسن ” جس کا تعلق بھی
ہی قبیلے سے تھا ، اس نے حجر اسود کو آزاد کرایا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا اس وقت ایک مسلہ یہ ضرور درپیش آیا
کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دیگا کہ یہی اصل حجر
اسود ہے یا نہیں کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطالعہ کر رکھا ہے .- اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ
نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا – پھر اسنے اسکو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح
آب پر ہی تیرتا رہا – اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کا پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو
سکتا ہے سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح
نشان پڑ گیا – اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے کلہاڑے کو اٹھایا . الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور قریب
ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو اسکی یہ گھناونی کاروائی دیکھہ تھا ، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اسکی حجر اسود پر دوسری
ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی سن 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ بھیجا جس میں سے ایک ” الحاکم
العبیدی ” تھا جو ایک مظبوط جسم کا مالک سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا – وہ اپنے ساتھہ ایک تلوار اور ایک
crowbar لایا تھا اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اسنے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں ”حجر اسود ” پر لگا ڈالیں جس سے اسکی
کرچیاں اڑ گئیں – وہ ہزیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوے کہ رہا تھا کہ ( معاذ الله ) جب تک وہ اسے پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا تب تک
سکوں سے نہ بیٹھے گا – بس اس موقع پر ایک مرتبہ پھر الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب
افراد کو گھیر لیا اور ان سب کو نہ صرف جہنم واصل کیا بلکہ انہیں جلا بھی ڈالا اسی طرح کا ایک واقعہ سن 990 ہجری میں بھی ہوا جب ایک
غیر عرب باشندہ ہتھیار کے ساتھہ مطاف میں آیا اور اسنے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی – اس وقت ، اسوقت کا ایک شہزادہ ” شہزادہ نصیر ”
مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دی6 سن 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی
باشندہ مطاف میں آیا اور اسنے حجرہ اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا -ا س نے کعبہ کی
سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا – کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا – اور پھر اسے مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا
دے دی گئی اسکے بعد 28 ربیع الاول سن 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل السعود نے اس پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار
میں نصب کیا جو اس فاطر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت
سے اتارا گیا تھا بلکہ حوادث زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسه دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بےچین رہتے
ہیں آٹھہ ٹکڑوں میں تبدیل کردیا ہے جنھیں 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل السعود کے حکم پر اب ایک خاص خوشبو
والے کیمیکل میں جو خاص اسی کے لیے ہی بنایا گیا تھا ، اس میں پیوست کر کے کعبہ کی دیوار میں رکھا دیا گیا ہے اور الحمد الله یہ آج بھی
ہماری نظروں کے سامنے موجود ہے