یوسف بن تاشفین کے حالات زندگی
یوسف بن تاشفین کی زندگی کے کچھ پہلووں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یوسف نے کس طرح اندلس میں مسیحی یلغار کو روکے رکھا۔
یوسف بن تاشفین نے 1061ءسے 1107ءتک حکومت کی۔ وہ بڑا نیک اور عادل حکمران تھا،اس کی زندگی بڑی سادہ تھی۔ تاریخ اسلام
میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ صحرائے اعظم میں اسلام کی اشاعت اور اندلس میں مسیحی یلغار کو روکنا اس کے بہت بڑے کارنامے
ہیں۔ شہر مراکش کی تعمیر بھی قابل فخر کارناموں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس طرح اس نے ایک نیم وحشی علاقے میں دارالحکومت قائم
کرکے تہذیب اور علم کی بنیاد ڈالی۔ یوسف نے تقریباً پچاس سال حکومت کی۔ اس کی قائم کی ہوئی سلطنت دولت مرابطین (1061ءتا
1147ء) کہلاتی ہے۔ یوسف کے انتقال کے بعد یہ حکومت مزید 40 سال قائم رہی۔ اس کے بعد جن لوگوں کی حکومت ہوئی وہ موحدین
کہلاتے تھے۔ سلطنت موحدین میں بھی کچھ سلاطین بڑے ہی قابل ذکر تھے ۔ جن میں ابو یوسف یعقوب المنصور اور عبدالمومن بڑے
قابل ذکر نام ہیں۔ یوسف بن تاشفین مراکش کے جنوب میں صحرائی علاقے کارہنے والا تھا جس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے صحرائے
اعظم اور اس کے جنوب میں خاندان مرابطین کی حکومت قائم کی اور بعد ازاں اسے اسپین تک پھیلادیا۔ اس نے صحرائے اعظم میں
رہنے والے نیم وحشی اور حبشی باشندوں سے کئی سال تک لڑائیاں کیں اور اپنی حکومت دریائے سینی گال تک بڑھادی تھی۔ یہ لوگ
ان قبائل کے خلاف جہاد ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان میں اسلام کی تبلیغ بھی کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے بے شمار بربروں اور
حبشیوں کو مسلمان بنایا۔ تبلیغ کا یہ کام یوسف کے چچا عبداللہ بن یٰسین کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے دریائے سینی
گال کے ایک جزیرے میں ایک خانقاہ بنائی تھی۔ شروع میں یوسف بن تاشفین اس کام میں اپنے چچا کے ساتھ تھا لیکن بعد میں
یوسف شمال کی طرف آگیا اور یہاں فاس اور دوسرے شہر فتح کرکے کوہ اطلس کے دامن میں واقع شہر مراکش کی بنیاد ڈالی۔ اندلسی
مسلمانوں کا وفد یوسف سے امداد لینے کے لئے اسی شہر مراکش میں آیا تھا۔ یوسف بن تاشفین کا تذکرہ شائد جنگ زلاقہ کے بغیر ادھورا ہے
اس لئے اپنے دوستوں کو جنگ زلاقہ کے بارے بھی کچھ تفصیل بتاتے ہیں۔جب اندلسی مسلمانوں کا وفد یوسف سے مدد مانگنے مراکش آیا
تویوسف بن تاشفین اندلسی مسلمانوں کی مدد کے لئے تیار ہوگیا اور ایک طاقت ور فوج کے ساتھ اندلس روانہ ہوا۔ 1086ء میں عیسائی
بادشاہ الفانسو نے ”زلاقہ“ کے میدانِ جنگ میں مسلمانوں کامقابلہ کیا۔ ایک سخت لڑائی کے بعد یوسف بن تاشفین نے الفانسو کو
شکست دی۔ جنگ زلاقہ نے ایک انقلاب پیدا کردیا،عیسائیوں کی ہمتیں ٹوٹ گئیں اور یوسف بن تاشفین نے اندلس کی چھوٹی چھوٹی
مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو سلطنت مرابطین میں شامل کرلیا۔ اس جنگ وجوہات کچھ یوں تھیں۔ ہشام ثانی نے اپنے 26 سالہ دور
حکومت میں ہسپانیہ میں ابھرتی ہوئی عیسائی ریاستوں کے خلاف 52 مہمات میں حصہ لیا اور کبھی بھی شکست نہیں کھائی لیکن 1002ء
اس کے انتقال کے بعد اسپین میں مسلم حکومت کو زوال آگیا اور وہ کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ 1082ء میں الفانسو ششم نے قشتالہ سے
اپنی تاریخی فتوحات کے سفر کا آغاز کیا۔ نااہل مسلم حکمرانوں میں اسے روکنے کی ہرگز صلاحیت نہیں تھی۔ 1085ء میں اس نے بنو امیہ
کے دور کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ شہر کے عظیم باسیوں نے 5 سال تک عیسائیوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی لیکن بالآخر
ہمت ہار بیٹھے۔ الفانسو کا اگلا ہدف سرغوسہ کی کمزور ریاست تھی۔ مسلم حکمرانوں کی نااہلی کے مکمل ادراک کے بعد علماء نے شمال
مغربی افریقا میں دولت مرابطین کے امیر یوسف بن تاشفین سے رابطہ کیا اور ان سے اندلس کی ڈوبتی ہوئی مسلم ریاست کو بچانے کا
مطالبہ کیا۔ جس پر یوسف نے تیاری شروع کردی۔ فوجیوں کی خدمات حاصل تھیں۔جبکہ یوسف کی فوج بیس ہزار کے قریب تھی۔20
ہزار مسلم افواج میں سے شامل 12 ہزار بربر (10 ہزار شہسوار اور دو ہزار پیادی) بہترین جنگجو تھے جبکہ مقامی 8 ہزار افواج شہسواروں اور پیادہ
افواج پر مشتمل تھے۔ دونوں سپہ سالاروں نے جنگ سے قبل پیغامات کا تبادلہ کیا۔ یوسف نے دشمن کو تین تجاویز پیش کیں: ١۔ اسلام
قبول کرو، ٢۔ جزیہ ٣۔ یا جنگ ۔ الفانسو نے مرابطین سے جنگ کو ترجیح دی۔جنگ 23 اکتوبر1086ء بروز جمعہ صبح سورج نکلتے وقت
الفانسو کے حملے کے ساتھ شروع ہوئی۔ یوسف نے اپنی فوج کو دستوں میں تقسیم کیا پہلے دستے کی قیادت عباد ثالث المعتمد کررہا تھا جبکہ
دوسرے دستے کی قیادت خود یوسف بن تاشفین نے کی۔ دوپہر تک المعتمد کی افواج ہی الفانسو کا مقابلہ کرتی رہیں جس کے بعد یوسف بن
تاشفین اپنی فوج سمیت جنگ میں داخل ہوا اور الفانسو کی افواج کا گھیرائو کرلیا جس پر عیسائی افواج میں افراتفری پھیل گئی اور یوسف نے
سیاہ فام باشندوں پر مشتمل تیسرے دستے کو حملے کا حکم دے دیا جس نے آخری اورفیصلہ کن حملہ کرتے ہوئے جنگ کا فیصلہ مسلم افواج
کے حق میں کردیا۔ مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 60ہزار کے عیسائی لشکر میں سے 59ہزار 500
اس جنگ میں کام آئے جبکہ الفانسو زندہ بچ گیا تاہم اس کی ایک ٹانگ ضائع ہوگئی۔ اس میدان جنگ کو زلاقہ کے نام سے پکارا جاتا ہے
جس کا مطلب ”پھسلتا ہوا میدان“ ہے کیونکہ معرکے کے روز اس قدر خون بہا کہ افواج کو قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی۔ عیسائی
ذرائع اس جنگ کو Battle of Sagrajas کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس تاریخی فتح کے نتیجے میں اگلے 300 سال تک اسپین
میں مسلم حکومت موجود رہی۔ اگر یہ فتح نہ ہوتی تو مسلمانوں کی حکومت 1092ء میں ہی ختم ہوجاتی۔ اس جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کی
اہم ترین وجہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں شکست کے بعد ہی عیسائیوں نے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جارحیت کے سلسلے کا
آغاز کیا۔جس کا جواب بعدازاں صلاح الدین ایوبی نے باخوبی دیا۔