A brave woman:ایک بہادر عورت کی داستان
شوال تین ہجری ہے، میدان جنگ گرم ہے،مجاہدین اور کفار کی فوج نے اپنے گھوڑوں کے قدموں اور اپنے قدموں سے میدان جنگ
میں دھول اور گرد کا طوفان پیدا کیا ہوا ہے اور اس گرد کے طوفان میں نظر آرہا ہے کہ میدان کے پیچھے احد کا پہاڑ اپنی شان و شوکت سے کھڑا
ہے اور اس کے دامن میں مجاہدین و کفار ایک دوسرے پر حملے پر حملے کررہے ہیں۔ تلواروں سے، تیروں سے، نیزوں سے اور پتھروں
سے…. ایک طرف مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو ہے تو دوسرے طرف کفار کا لشکر تین ہار لوگوں پر مشتمل ہے، جو ہر طرح کے
اسلحوں، گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ مقابلے کے لیے آئے تھے، جنگ کی اس گرمی میں جہاں حق و باطل ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر
حملے کررہے ہیں وہیں چند مسلمان سپاہیوں کی مرہم پٹی اور پانی پلانے کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ مسلمانوں نے اس بہادری سے
مقابلہ کیا کہ جنگ کی ابتداءہی میں کفار کے سات بہادر جنگجو مارے گئے اور ایک یقینی فتح مسلمانوں کو نظر آنے لگی اور ایسے میں کفار
میدان جنگ سے بھاگنے لگے، ان کے پیچھے ان کی خواتین جو کچھ دیر پہلے دف بجا بجا کر کفار کو مقابلے کے لیے ابھار رہی تھیں دف
پھینک کر بھاگ رہی تھیں۔ مسلمانوں نے میدان میں موجود بقیہ کفار کو قیدی بنانا اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کیا۔ ایسے میں ایک
پہاڑی درہ جہاں سے کفار کے حملے کا خطرہ تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو حفاظت کے لیے اس تاکید کے
ساتھ مقرر کیا کہ جنگ کے حالات کچھ بھی ہوں جب تک انہیں مدد کے لیے یا مال غنیمت کے لیے بلایا نہ جائے وہ ہر گز اپنی جگہ سے
نہ ہلیں۔ مگر ان تیر اندازوں نے جب میدان میں مسلمانوں کو مال غنیمت سمیٹتے دیکھا تو وہ بھی میدان کی طرف بھاگے اور اپنے کمانڈر کی
بات کو بھول بیٹھے، اب اس پہاڑی درے پر کمانڈر سمیت صرف دس تیر انداز رہ گئے۔ کفار کا ایک دستہ جو بار بار درے کی طرف حملے کررہا
تھا اب جگہ خالی دیکھ کر درے کی طرف لپکا اور باآسانی اس دس لوگوں سے مقابلہ کرتے ہوئے میدان جنگ میں مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ
کیا۔ اس اچانک حملے سے مسلمان بدحواس ہوکر ادھر ادھر بکھرنے لگے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز سنائی نہیں دی اور
کفار نے شور مچادیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید کردیے گئے۔ اب مسلمانوں کے حوصلے اور بھی کم ہوگئے مگر چند اصحاب ایسے بھی تھے جو
اب بھی بھرپور لڑائی کررہے تھے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ بے تاب ہو کر
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے لگے اور بالآخر خود جنگی ٹوپی کے اندر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرنور آنکھوں سے پہچان
لیا اور یہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپکے اور کفار کی طرف سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
طرف آنے والے تیروں اور تلواروں کے وار کو اپنے جسم پر روکنے لگے۔ ایسے میں پانی پلانے والی عورتوں میں سے ایک عورت نے یہ
منظر دیکھا تو اپنا مشکیزہ پھینک کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑیں جہاں ان خاتون کا بیٹا پہلے ہی سے پیارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے دفاع میں مصروف تھا۔ خاتون نے بھاگتے ہوئے ایک مشرک کی تلوار اور ڈھال جو وہ پھینک کر بھاگ رہا تھا اپنے ساتھ
لے لیا اور کفار کے حملے روکنے کی کوشش کی۔ یہ خاتون ایک طرف تلوار سے بھی دشمنوں کے قریب آنے سے روکتیں تو دوسرے طرف
تیر سے بھی حملے کرتیں۔ اسی دوران خاتون کے بازو پر ایک مشرک کی تلوار سے گہرا زخم لگا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو یہ تمام کارنامہ
اپنی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ فوراً ان کے بیٹے کو حکم دیا کہ اپنی ماں کو سنبھالو اور ان کی مرہم پٹی کرو۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا۔ اے خاندان والو اللہ تم پر رحمت کرے، اے خاندان والوں اللہ تم پر رحم کرے۔ اور خود اپنی نگرانی میں ان کی مرہم پٹی کروائی اور
ان خاتون کو کہا کہ آج تم نے بہت بہادری دکھائی جس پر خاتون نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم پر قربان میرے لیے دعا فرمائیے کہ جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا
کرائی۔ دعا سن کر خاتون کو بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اب مجھے دنیا میں کسی مصیبت کی پروا نہیں۔ یہ بہادر خاتون جنہوں نے
اپنی جان سے بڑھ کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے نازک وقت میں حفاظت کی اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی
بہادری کی تعریف کی۔ حضرت ام عمارہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کا نام نسیبہ بنت کعب تھا لیکن اپنی کنیت ام عمارہ ہی سے مشہور
ہوئیںاور احد کے دن بہادری کے کارنامہ کے بعد لوگ انہیں خاتون احد کے نام سے یاد کرنے لگے۔