Local names
Urdu: (Bael)بیل گری-South Asia-Assamese: বেল-Hindi: बेल (Bel)-Gujarati: બીલી-, (Sirphal) سری پھل-Nepali: बेल: (Bel or Wood Apple)-Oriya: Baela ବେଲ-Bengali: বেল (Bell)-Kannada: ಬೇಲದ ಹಣ್ಣು (edible variety)-Kannada: bilvÀpatre Mara (sacred variety tree)-Konkani: gorakamli-Malayalam: കൂവളം (koo-valam)-Marathi: बेल (Bel)-Punjabi: ਬਿਲ (Bil)-Sanskrit : बिल्व (Bilva)Shreephala, shaandilya, shailoosha, maaloora-Sindhi: ڪاٺ گدرو-Sinhalese: බෙලි (Beli)-Tamil: வில்வம் (Vilvam)-Telugu: మారేడు (maredu)..Sir Phal (old Hindi)
Biological Name of bael giriبیل گری: Aegle marmelos……Rutaceae
Other Names bael giriبیل گری: Bael, Bilwa, Belaphal,Baci fruit, Koovalam, Sreephal, Vilva, Vilvam
Parts Used: Fruit, root-bark, leaves, rind, flowers
benefits and uses bael giriبیل گری:
habitual constipation-diabetes-dyspepsia-chronic diarrhea-heart diseases-dysentery
Decoction of the root and stem-bark is used in the palpitation of the heart. Leaf-juice is reported to have multifarious medicinal uses, including control of diabetes.
bael giriبیل گری
مختلف نام : (بنگلہ ) بلوا (ہندی) بیل پھل (مرہٹی) بیل (پنجابی ) بِل (عربی) سَفر جل ہندی (سندھی) کا ٹھوری
BAEL FRUIT(گجراتی) بیلی بیلو (سنسکرت) بِلو ،بلوا (انگریزی)
پہچان :۔ یہ درخت بیل کا تازہ نیم پختہ پھل ہے۔ جس کو کاٹ کو دھوپ میں خشک کر لیتے ہیں۔ اس کا خار دار درخٹ ۱۵ سے ۲۵ فٹ تک اونچا ہوتا ہے۔ تنا بہت موٹا ہوتا ہے۔ اس پر کانٹے نہیں ہوتے ٹانگوں پر جوشاندہ سے پاشویہ کرنا دماغ پر نجارات نہیں چڑھنے دیتے اور اس کے پتوں کے کانٹے ہوتے ہیں۔ جو بہت تیز اور مضبوط ہوتے ہیں۔ اس کے پتے ثلاثی یعنی تین تین ہوتے ہیں۔ دو پتے بالمقابل ہوتے ہیں۔ موسم گرما سے قبل اس کے پرانتے پتے جھڑ جاتے ہیں ۔ اور چیت بیساکھ میں نئے پتے نکل آتے ہیں ۔ جن کا رنگ سُرخ ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں سبز رنگ کے ہوجاتے ہیں۔ موسم گرما کے آتے ہی پھل پکنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس وقت درخت کے تمام پتے جھڑ جاتے ہیں۔ اور درخت پر صرف پھل ہی رہ جاتے ہیں۔ پھل جسامت میں نارنج کے برابر ہوتا ہے۔ جس کا وزن آدھ پائو سے لے کر نصف سیر تک ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا دبیز ، سخت اور چکنا ہوتا ہے ۔ اس کے اندر سخت گودا بھرا ہوتا ہے۔ پکنے پر گودا نرم ہوجاتا ہے۔ اور اس میں مٹھاس آجاتی ہے۔ ہندو اس درخت کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور اس کو ضائع کرنا گنا ہ سمجھتے ہیں۔ اور اس کے پتوں کو شیو جی کی مورتی پر چڑھاتے ہیں۔ میرٹھ کا کا غذی بیل بہترین سمجھا جاتا ہے۔ اس میں بیج بہت کم ہوتے ہیں۔ موسم سرما کے خاتمہ پر پھول چھوٹے چھوٹے سفید رنگ کے آتے ہیں۔ پھولوں میں شہد کی مانند خوشبو آتی ہے۔ اس میں ٹے نین کے سوا کوئی دوسراجزو موثرہ تا حال دریافت نہیں ہوا ۔
حصص مستعملہ :۔ جڑ پوست پتے اور پھل پھل کا گودا دوائی استعمال کے لیے خام پھلوں کا خشک گودا ہی کام میں لایا جاتا ہے۔ مربا کے لیے آدھے پکے پھولوں کا گودا استعمال کیا جاتا ہے۔ پختہ پھلوں کے گودا کا شربت بنایا جاتا ہے۔ دشمول وغیرہ جو شاندوں کے لیے جڑ یا درکت کا پوست برتا جاتا ہے۔
رنگ:۔ پھل شروع میں سبز رنگ کے ہوتے ہیں اور ان پر قدرے نیلے رنگ کی جھلک ہوتی ہے پکنے پر زرد ہوجاتے ہیں۔
ذائقہ :- پھل شیریں لیس دار مخت
پوست:۔ کسیلا تلخ
مزاج:۔ گرم ۱ خشک ۲
مقدار خوراک : تازہ پھل ۲ تولہ تا چار تولہ خشک گودا دو ماشہ سے ۵ ماشہ پوست چھ ماشہ ایک تولہ
افعال و استمال :- قابض ، حابس الدم ، مقوی معدہ ، و جگر و دل موسم گرما میں اس کا تازہ گودا رات کو پانی میں بھگو کر صبح کوزہ مصری ملاکر پیتے ہیں ۔ قابض ہونے کی وجہ سے پرانے دستوں کو بند کرتا ہے۔ پرانی پیچس میں فائدہ کرتا ہے۔ آنتوں کو صاف کرتا ہے۔ آئوں اور خون کو بند کرتا ہے۔ بچوں کو اسہال و پیچس میں بہت فائدہ دیتا ہے۔ شربت بیل اور مربا اس کے مشہور مرکبات ہیں ۔ بیل کی جڑ کی چھال دافع بخار بیان کی جاتی ہے۔ اور امراض وات کے لیے بہت مفید ہے۔ وئید اس کی چھال کو خفیف بخاروں میں بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ دشمول کا ایک جزو ہے۔ طب جدید میں اس کا ایکسٹرکٹ دوائ مستعمل ہے۔ لیکن وہ پیچس کا شانی علاج نہیں ہے۔ اس لیے برٹش فارماکوپیا سے خارج ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر آرایل دت لکھتے ہیں۔ کہ اس کے ایکسٹرکٹ زیادہ مفید ثابت ہوتےہیں۔ بیل کا پھل جو ٹکڑے کرکے خشک کرلیا جاتا ہے۔ بیل گری کے نام پنساریوں کے ہاں بکتا ہے۔
مقام پیدائش:۔ یوپی ، وسط و جنوبی ہند برما