Home / Female Diseases | امراض زنانہ / what is the Pimples and its cure :کیل مہاسے کیا ہیں اور ان کا علاج

what is the Pimples and its cure :کیل مہاسے کیا ہیں اور ان کا علاج

what is the Pimples and its cure:کیل مہاسے کیا ہیں اور ان کا علاج

پمپل یا کیل یا مہاسے عام طور پر سے لڑکوں اور لڑکیوں کے چہروں پر

نکلتے ہیں انہیں جوانی یا شباب کیآمد کا اعلان سمجھ لیجئے ۔ یہ کیل اور

مہاسے عام طور پر ہمارے جسم پر چکنائی پیدا کرنے والے غدود کی بیماری

ہے ۔ مہاسے اور کیل زیادہ تر جسم کے اس حصے پر نکلتے ہیں جہاں چکنائی

پیدا کرنے والے غدود زیادہ تعداد میں موجود ہوتے ہیں ۔ چہرے، ماتھے،

رخسار، گردن، سینے، کے بالائی حصیاور کاندھوں پر زیادہ چکنائی کے یہ

غدود اندرونی تہوں میں موجود ہوتے ہیںاور چھوٹی چھوٹی باریک نالیوں کے

ذریعے ہمارے جسم سے پسینہ بھی خارج ہوتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی نالیاں باریک

باریک مساموں اور سوراخوں کی شکل میں جلد پر ظاہر ہوتی ہیں اور صرف

خورد بین کے ذریعے یہ انسان کے جسم پر دیکھی جا سکتی ہیں ان سوراخوں

کے ذریعے انسان کے جسم کے بال بھی بیرونی سطح پر ظاہر ہوتے ہیں ۔

جن غدودوںکی نالیوں سے باقاعدگی سے چکنائی اور پسینے کا اخراج ہوتا رہتا

ہے وہاں پر چکنائی کی نالیاں اپنا کام کسی رکاوٹ کے بغیر سر انجام دیتی

رہتی ہیں مگر جہاں پر چکنائی کی کثرت یا صفائی کی کمی کی وجہ سے نالیاں

بند ہو جاتی ہیں وہاں ان نالیوں میں لیس دار مادے کے جمع ہونے کی وجہ سے

جلد کے اوپر کیل یا مہاسے بننا شروع ہوجاتے ہیں مگر جہاں جہاں بال ہوتے

ہیں وہ ان نالیوں کو کھولے رکھتا ہے اور چکنائی جمع نہیں ہو پاتی ۔ یہی وجہ

ہے کہ بالوں والے حصوں مثلاْ داڑھی مونچھوں وغیرہ کی جگہ پر کیل اور

مہاسے کم نکلتے ہیں اور جن حصوں پر بال کم ہوں مثلاْ رخسار ، ناک اور

ماتھے وغیرہ وہاں ان کی اکثریت ہوتیہے ۔

یہ بات سب کے مشاہدے میں آئی ہوگی کہ نو جوان لڑکے اور لڑکیوں کے

چہرے پر مختلف سائز کے سرخ اور گلابی رنگ کے دانے نکلتے ہیں یہ

عموماْ سخت اور گول ہوتے ہیں لیکن صفائی کی کمی یا جرثوموں کے حملے

کی وجہ سے انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان میں پیپ پڑ جاتا ہے اور ان

کی رنگت پیلی ہو جاتی ہے تب یہ ایک پھنسی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔

بعض اوقات اندر سے کچھ مہاسوں کی نالیاں مل جاتی ہیں اور جلد کے اوپر

ایک پھوڑا بن جاتا ہے جس میں ہر وقت رطوبت بھری رہتی ہے جن مہاسوں

کی جڑیں جلد کے اندر گہری رہتی ہیں وہ ٹھیک ہونے کے باوجود چہرے پر

دھبے چھوڑ جاتے ہیں بعض اوقات چہرے پر یہ نشان مستقل دھبوں کی شکل

میں موجود رہتے ہیں جبکہ چھوٹے کیل اور مہاسے جن کی جڑیں جلد کے

قریب ہوں یا نالیاں ہوں تو ایسے مہاسے ٹھیک ہو کر چہرے پر داغ نہیں

چھوڑتے اگر ان کے نشان بنیں تو وقت کے ساتھ چہرے سے صاف ہو جاتے

ہیں ۔

اقسام

چہروں پر نکلنے والے مہاسوں کی بہت سی اقسام ہیں ہر شخص میں ان کے

نکلنے کی عمر اور وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں اور ایک جیسی بھی ۔ سب

سے زیادہ اور عام طور پر نکلنے والے مہاسے جنہیں عرف عام میں ”ایک نی

ولگارس”کہتے ہیں عموماْ دس سال کی عمر کے بعد دوسری دہائی میں چہرے

پر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں اور پندرہ سال کی عمر میں زیادہ ہو جاتے ہیں مگر

عورتوں میں دوسری دہائی کے آخر میں یا بیس سال کی عمر میں یا بعض

اوقات تیس یا پینتیس سال کی عمر تک بھی رہتے ہیں اگر مردوں کے چہروں

پر مہاسے تیسری دہائی میں بھی موجود ہوں تو پھر یی کسی اور وجہ سے

ہوتے ہیں اس قسم کے مہاسوں سے ان کا تعلق کم ہوتا ہے ۔ ان تشریحات کی

روشنی میں دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ دوسری اور

تیسری دہائی میں انسان کے جسم میں بلوغت کی کیلوں کے ظاہر ہونے والی

تبدیلیاں عموماْ چار وجہ کی ہوتی ہیں ۔ مثلاْ سب سے اول اور اہم تبدیلی یہ ہوتی

ہے کہ زنانہ اور مردانہ صفات کے ہارمونز دوسری دہائی کے شروع میں یا

دوسری دہائی میں کسی بھی وقت غدود سے خارج ہو کر خون میں شامل ہونا

شروع ہو جاتے ہیں ۔ چونکہ چکنائی خارج نہیں ہو سکتی اس لئے غدود کے

باہر سخت مہاسے یا دانے بن جاتے ہیں ان مہاسوں اور دانوں کے سروں پر

کالا دھبہ بھی دکھائی دیتا ہے ۔ اگر اس دھبہ کو دبا کر مہاسے میں سے چکنائی

خارج کریں تو ایک تل نما چیز نکل آتی ہے اسی نسبت سے مہاسوں کو عرف

عام میں کیل بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کیل کے نکلنے کی وجہ سے مہاسے ختم

ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔دوسری اہم تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ ایک خاص قسم کے

جراثیم دوسری دہائی میں دس سال کی عمر کے نو جوانوں اور لڑکیوں میں

زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ بیس سال کی عمر کے بعد جسم میں یہ جراثیم بہت کم رہ

جاتے ہیں ان جراثیم کی جسم میں موجودگی کی وجہ سے جلد میں ایک خاص

قسم کے تیزاب کا تناسب بڑھ جاتا ہے ۔ اس تیزاب کے بڑھنے سے چکنائی کے

غدود کو تحریک ملتی ہے اور وہ زیادہ چکنائی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔

یوں جلد کے اندر چکنائی کی نالیاں لیس دار مادے کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں

اور جلد کے بیرونی سطح پر سخت گول مہاسے بننا شروع ہو جاتے ہیں ۔

تیسری اہم تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ اس عمر میں انسان کے احساسات اور جذبات

کو تحریک ملنا شروع ہو جاتی ہے ۔ وہ بچپن کی معصوم حد سے نکل کر

جوانی کی امنگوں اور یخلیاتی جذبات کی حدود میں قدم رکھتا ہے ۔

وجوہات

سائنس دانوں نے مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ اس عمر میں انسان کے

جذبات میں گھٹن ہو اور وہ ذہنی طور پر آزادانہ ہو اور اپنے آپ کو دبائو میں

محسوس کرے تو بھی مہاسوں کے نکلنے کی شرح تناسب بڑھ جاتی ہے ۔

سائنس دان بیان کرتے ہیں کہ جن گھروں میں والدین کی چپقلش ، گھریلو ناچاقی

ذہنی سکون نہ ہو تو ان لوگوں کے چہروں پر کیل مہاسے زیادہ پیدا ہوتے ہیں

چونکہ بعض او قات اس قسم کے نو جوان جذباتی انداز میں اپنے کیلوں کو ہاتھ

لگاتے رہتے ہیں اور ان کو چھیڑتے رہتے ہیں اس لئے مہاسے زخمی ہو جاتے

ہیں اور کیل جلد کے اندر رہ جاتی ہے لہٰذا ان کے چہروں پر مہاسوں کے داغ

رہ جاتے ہیں اگر ایسے مہاسوں کو نہ چھیڑا جائے تو یہ وقت کے ساتھ ساتھ

خود ہی انسان کی قوت مدافعت کے زیر اثر ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور

کوئی داغ چھوڑے بغیر چہرے سے صاف ہو جاتے ہیں لیکن اگر مناسب صفائی

کی کمی یا مہاسوں کو بار بار چھیڑنے کی وجہ سے ان مہاسوں میں انفیکشن

پیدا ہو جائے تو پھر یہ چہرے پر بد نما داغ بھی پیدا کر دیتے ہیں جو بعض

اوقات کافی عرصے تک چہرے پر رہتے ہیں ۔

بعض اوقات وقت کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر اور بعض او قات نصف حد تک

ٹھیک ہو جاتے ہیں مگر بعض اوقات ایک پھوڑے کی شکل بھی اختیار کر لیتے

ہیں اور پانی جیسی رطوبت بھی خارج کرتے رہتے ہیں کچھ عرصے کے بعد

جسم کے مدا فعتی نظام کی وجہ سے ٹھیک ہو جاتے ہیں اور عموماْ چہرے پر

کوئی داگ نہیں چھوڑتے مگر کسی کسی کیس میں یہ سوئی کی طرح یا چچک

کے نشان کی طرح کے دھبے چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں جب بھی کسی کے چہرے پر مہاسے

نکلتے ہیں تو وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے ان مہاسوں کے نکلنے کی عجیب و

غریب تاویلیں پیش کرنے لگ جاتا ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان مہاسوں کا

جسم کی گرمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہر انسان کے جسم کا درجہ حرارت

98.4کے قریب رہنا چاہئے اس سے کم یا زیادہ درجہ حرارت فطری نہیں ہوتا

بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جوانی کے زیادہ آنے کی وجہ سے بھی چہرے

پر کیل نکلتی ہیں ۔ یہ بات بھی درست نہیں مہاسے جوانی یا شباب ناپنے کا

پیمانہ نہیں ہوتے سب کو جوانی ایک بار آتی ہے البتہ کچھ لوگ اپنی کم علمی

اور جہالت کی وجہ سے ایسی الٹی سیدھی تاویلات پیش کرتے رہتے ہیں اور نو

جوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ نو جوانوں کو چاہئے کہ

وہ بیس سال کی عمر تک نکلنے والے مہاسوں سے خوفزدہ نہ ہوں اور انہیں

جسم کی گرمائش یا جوانی کی کمی و بیشی پر محمول نہ کریں بیس سال تک

کی عمر مہاسوں کے لئے سازگار ہوتی ہے ۔ مہاسوں کے ضمن میں سائنس

دانوں نے اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ یہ خاندانی طور پر بھی نکلتے ہیں

اور اولاد کے چہرے کو بھی متاثر کرتے ہیں مگر ایسے لوگ بھی بعض او

قات اپنی کم علمی کی وجہ سے ان مہاسوں کے نکلنے کے بارے میں عجیب و

غریب تاویلیں پیش کرتے ہیں اور اشیائے خورد ونوش کو مورد الزام ٹھہراتے

ہیں مثلاْ بعض خواتین یہ شکایات لے کر آتی ہیں کہ انہوں نے جون جولائی کی

گرمیوں میں انڈے کھائے جن کی وجہ سے جسم کی گرمی مہاسوں کی شکل

میں نکل رہی ہے۔ بعض خواتین اور نو جوان یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہوں نے

ہوٹلوں یا کسی پارٹی میں زیادہ مصالوں والا کھانا کھایا جس کی وجہ سے ان

کو گرمی ہو گئی ان کے چہروں پر کیل نکلنا شروع ہو گئے اسی طرح کچھ

مریض بڑا گوشت کھانے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چند دن

انہوں نے بڑا گوشت کھایا اور ان کا چہرہ مہاسوں کی زد میں آ گیا در اصل یہ

تمام باتیں لغو اور جاہلیت پر مبنی ہوتی ہیں ۔ مہاسے جسم کی گرمی یا سردی

دسے نہیں نکلتے اور نہ ان کا تعلق کھائی جانے والی اشیاء کے گرم یا ٹھنڈا

ہونے پر منحصر ہوتا ہے البتہ گرم چیزوں سے پر ہیز کرنے سے کسی حد تک

مہاسوں کو بچایا جا سکتا ہے ۔ خواتین میک اپ اور چکنی چیزیں کھانے سے

پر ہیز کریں تو کیلوں کی شدت میں کمی کا مشاہدہ کیا گیا ہے ۔

علاج

جو خواتین پانچ وقت نماز کے لئے منہ دھوتی ہیں ان میں بھی مہاسوں کی شدت

میں کمی کا مشاہدہ کیا گیا ہے ۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ جو لوگ

مہاسوں کو چھیڑتے ہیں اور ان کو دبا کر کیل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ

بعض اوقات اپنے چہرے کی جلد کو خراب کر لیتے ہیں اور پھر جلد پر دھبے

اور نشانات پڑ جاتے ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جب کسی کو مہاسوں کی شدت

کا سامنا کرنا ہو تو اپنے فیملی ڈاکٹر سے رجوع کریں اور غلط قسم کی کریموں

اور لوشنوں کے چکر میں پڑ کر اپنے چہرے کو تباہ نہ کریں رنگت خدا کی

دین ہے اسے غلط قسم کی کریموں سے نکھارنے کے چکر میں پڑ کر مزید

خراب نہ کریں ورنہ رنگت کے نکھرنے کے بجائے مہاسوں کا سامنا کرنا

پڑیگا ۔

مہاسوں کا علاج ذرا طویل مدت کا ہوتا ہے عموماْ چھ ماہ سے ایک سال کا

عرصہ ان مہاسوں کو درست ہونے میں لگ جاتا ہے علاج کو مندرجہ ذیل

حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ جراثیم کش اینٹی بائیوٹک دوائیں اس وقت

موثر ہوتی ہیں جب مہاسوں میں انفیکشن ہو چکی ہو ۔ عورتوں میں مخصوص

ہارمونز کے استعمال سے تیسری دہائی میں نکلنے والے مہاسے کی صورت

میں سیٹرائیڈز بھی مدد گار ہوتے ہیں ان کے چونکہ مضر اثرات ہوتے ہیں اس

لئے انہیں زیادہ استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ وٹامنز کا استعمال خاص طور پر

مہاسوں کے علاج میں بہت موثر ثابت ہوتا ہے جب دوسرے تمام اقدام ناکام ہو

گئے ہوں ۔ مہاسے خشک ہو یا کم سرخ ان میں پیپ ہو یا نہ ہو ایسی صورتحال

میں وٹامنز کا استعمال بہت کارگر ہوتا ہے ۔

1نسخہ نمبر

ایلوویرا کا مسلسل استعمال بھی ایسی جلد کے لیے بہترین ہے۔ اس سے جلد کی

بیرونی سطح پر موجود مسام بند ہوجاتے ہیں جس سے کیل مہاسوں اور دانوں

کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس کا مسلسل استعمال جاری رکھنے سے داغ دھبے

بھی ختم ہو جاتے ہیں

2نسخہ نمبر

مہاسوں کو دور کرنے کے لیے مسور کی دال کا ابٹن گائے کے دودھ میں ملا

کر دن میں دو بار لگانا مفید ہے۔ اس سے نہ صرف مہاسے دور ہوتے ہیں بلکہ

چہرے کی رونق بھی بڑھتی ہے۔

3نسخہ نمبر

روغنِ زیتون اور روغنِ کدّو ہم وزن ملا کر لگانے سے چہرے پر دانوں اور

مساموں کی وجہ سے پڑنے والے گڑھے ٹھیک ہو جاتے ہیں بلکہ یہ روغن

چہرے پر چیچک کے داغ بھی دور کرتا ہے۔ اس کے مسلسل چھ ماہ کے

استعمال سے بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

4نسخہ نمبر

صبح شام اپنے منہ کو بیسن سے دھوئیں۔ یہ چہرے کی نہ صرف مناسب صفائی

کرتا ہے بلکہ کیل مہاسوں کا سبب بننے والی چکنائی کی اضافی مقدار کو بھی

کم کرتا ہے اور یوں کیل مہاسوں اور دانوں کا سلسلہ تھمنے لگتا ہے۔

5نسخہ نمبر

پمپل سے فوری جان چھڑانے کے لیے ایک برتن میں نمک ملا نیم گرم پانی لیں

اور روئی کو اس میں نچوڑ کر کیل مہاسے یا دانے والی جگہ پر رکھ کر دبائیں

اور تین چار دفعہ یہی عمل دہرائیں اور ہر بار کے لیے الگ الگ روئی کا

استعمال کریں۔ یہ طریقہ تھوڑا تکلیف دہ ہے لیکن اس سے پمپل ختم ہو جائیں

گے۔

6نسخہ نمبر

سنگترے کے چھلکے سُکھا کر باریک پیس لیں۔ اس سفوف کو پانی میں یا

خشک جلد والے، دودھ میں حل کر کے چہرے پر ملیں۔ اس سے چہرے کے

داغ دھبے اور پھنسیاں دور ہو جائیں گی۔

7نسخہ نمبر

کیل مہاسوں پر قابو پانے کے لیے کڑوے بادام پیس کر اور دودھ میں ملا کر

لگائیں۔

8نسخہ نمبر

شکر کا مشروب یا شربت عناب پینے سے بھی کیل مہاسے ختم ہو جاتے ہیں۔

9نسخہ نمبر

مولی کا پانی چہرے پر لگانے سے کیل مہاسے ختم ہو جاتے ہیں۔

10نسخہ نمبر

کیل مہاسوں کے خاتمے کے لیے کالی مرچ کو مٹی کے گھڑے پر رگڑ کر

لگائیں۔

11نسخہ نمبر

نیم کی کونپلیں پیس کر چہرے پر لیپ کر لیجیے اور 30 منٹ بعد چہرہ دھو

ڈالیے۔ اس کے مسلسل استعمال سے چہرے کے داغ دھبے، کیل مہاسے وغیرہ

دور ہوں گے، رنگت میں نکھار آئیگا اور گرمی دانے اور پھنسیاں وغیرہ بھی

نہیں نکلیں گی۔

12نسخہ نمبر

مہاسوں اور پس بھرے دانوں کے لیے لہسن بھی بہترین اینٹی بائیوٹک کا کام

کرتا ہے۔ دن میں چار سے پانچ بار اس کو مہاسوں پر رگڑیں۔

error: Content is protected !!