ذیابیطس یعنی شوگر کا ایک خوراک سے علاج
یہ نسخہ اردو ڈائجسٹ سے حکیم عبدالوحید سلیمانی صاحب کا ہے
بابا محمد حسین اپنے دیگر عزیز و اقارب کے علاج کے لیے اکثر میرے پاس آتا تھا۔ ہنستا مسکراتا چہرہ، درمیانہ قد، سفید ترشی ہوئی داڑھی، تقریباً اسی سال عمر۔ باتیں کرنے کا شوقین تھا۔ باتیں کرنے پہ آتا تو کرتا ہی چلا جاتا۔ آج سے تقریباً پانچ برس پہلے وہ میرے پاس آیا۔ مریضوں کا ہجوم معمول سے زیادہ تھا، اسی لیے میں اس پر توجہ نہ دے سکا۔ مریض اپنی اپنی باری پر آتے گئے اور میں انہیں نسخے لکھ لکھ کر دیتا رہا۔ اس کی باری آنے میں ابھی تین مریض اور حائل تھے کہ اچانک وہ بول پڑا “حکیم صاحب! آپ کے پاس ذیابیطس کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں؟”
میں ابھی جواب نہ دے پایا تھا کہ کتب خریدنے کے لیے آئے ہوئے ایک گاہک نے جواب دیا “ذیابیطس بھی کوئی مرض ہے۔ ایک خوراک میں ٹھیک ہو جاتی ہے۔”
میں نے ادھر دیکھا، تو ایک موٹا تازہ کالا بجنگ آدمی کھڑا دکھائی دیا۔ جس نے دھوتی باندھ رکھی تھی۔ عمر پینتالیس پچاس کے لگ بھگ۔ میں نے ابھی کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ بابے نے کہا : “جھوٹ نہ بولو، ذیابیطس بھی کوئی ایسا مرض ہے کہ ایک خوراک میں ٹھیک ہو جائے۔ میں چالیس سال سے اس مرض کا شکار ہوں۔ سینکڑوں ڈاکٹروں، حکیموں اور ہومیو پیتھ کو دکھا چکا ہوں۔ بڑے بڑے اسپتالوں میں معاینہ کروایا ہے مگر کہیں شفا نہیں ملی۔ میں تمہاری بات کیسے مان لوں؟”
میں اب دوسری طرف متوجہ ہوا کہ دیکھوں کیا جواب ملتا ہے؟ دھوتی پوش نے کہا : “میں کوئی حکیم نہیں۔ ایک نسخہ کسی اللہ والے سے مل گیا تھا، میں فی سبیل اللہ دے رہا ہوں۔ کوئی پیسہ دھیلا نہیں لیتا۔ آپ کو ضرورت ہو تو آپ بھی لے جائیں۔ فقیر کا لنگر ہے۔”
میں نے اس شخص سے پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے اور تم کیا کرتے ہو، اس نے جواب دیا : “میرا نام شیخ ۔۔۔ ۔۔ ہے۔ میں ایک کارخانے کے باہر نان چنے کی ریڑھی لگاتا ہوں۔”
میں نے بابے سے کہا، “بابا جی! اس کا پتا لکھ لو اور کسی دن اس کے پاس جا کر دوا لے آؤ۔”
بابے محمد حسین نے اس کا پتا لکھ لیا اور چلا گیا۔ ایک ہفتہ بعد بابا پھر آیا۔ میں تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا، “بابا! شیخ صاحب کے پاس گئے تھے؟”
بابا کہنے لگا، “میں کیا کرنے جاتا؟ وہ شکل سے ہی جھوٹا لگتا تھا۔ میں ایسے سینکڑوں لوگوں کے پاس جا چکا ہوں۔”
میں نے کہا، “بابا ایک بات ہے۔ جس اعتماد سے وہ بات کر رہا تھا، اتنا اعتماد میں نے کسی اور شخص میں نہیں دیکھا۔ مانا کہ آپ سینکڑوں اطبا کے پاس گئے اور کہیں شفا نہیں ملی۔ ایک دفعہ اس کے پاس بھی چلے جاؤ۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ شفا نہیں ملے گی۔ چلو جھوٹوں کی فہرست میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا۔ جہاں سو وہاں سوا سو۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ دوا مفت دیتا ہے۔ کوئی پیسہ نہیں لیتا۔ آپ جائیں تو سہی۔”
میرے اصرار پر بابا رضا مند ہو گیا اور شیخ کے پاس چلا گیا۔ پھر کافی عرصے تک بابے کی کوئی خبر نہ ملی۔ ایک دن ایک نوجوان کا ٹیلی فون آیا۔ اس نے بتایا، “میں بابے محمد حسین کا پوتا بول رہا ہوں۔ بابا جی کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ جنرل ہسپتال میں داخل ہیں۔”
میں نے جلدی سے پوچھا، “انہیں کیا ہوا؟”
کہنے لگا، “کسی شخص کے پاس سے دوا لائے تھے۔ وہ دوا کھائی تو دست لگ گئے۔ تیس چالیس دست آئے تو ہم پریشان ہو گئے اور انہیں جنرل ہسپتال داخل کروا دیا۔ کمزوری بہت بڑھ گئی۔ ایک ہفتہ ہو گیا گلوکوز لگ رہا ہے۔”
میں نے کہا، “بابا جی! تو ذیابیطس کے مریض ہیں۔ انہیں گلوکوز کیسے لگ سکتا ہے؟”
نوجوان نے جواب دیا، “ڈاکٹر کہتے ہیں جسم میں شکر بے حد کم ہوئی ہے۔ گلوکوز نہ لگا تو بابا جوی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔”
میرے باقی سوالوں کا جواب نوجوان کو معلوم نہیں تھا۔ میں نے کہا، “جب بابا جی گھر آ جائیں تو مجھے ٹیلی فون کر دینا۔ میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔”
پانچ چھ روز گزر گئے۔ رات کو میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ چونگا اٹھایا تو بابا محمد حسین بول رہا تھا۔ میں نے پوچھا، “بابا! کیا ہوا تمہارے ساتھ؟”
کہنے لگا، “میں آپ کے پاس سے اٹھا تو سیدھا شیخ کے پاس گیا۔ اس نے مجھے دوائی کی ایک بڑی ساری پڑیا باندھ دی اور کہا، اس میں سے ایک ماشہ دوا میٹھے حلوے کے ساتھ کھانی ہے۔ میں گھر جا کر سوچا، میٹھا حلوہ تو محض تکلف ہے۔ ذیابیطس کے مریض کو تو حلوہ ویسے بھی نقصان دیتا ہے۔ لہذا میں نے دوا پانی کے ساتھ کھا لی۔ دوسری غلطی میں نے یہ کی کہ دوائی کی مقدار نہیں دیکھی۔ پتا نہیں وہ تولہ تھی یا چھ ماشہ، میں نے ساری دوا ایک ہی دفعہ پھانک لی۔ اس کے بعد جو میری حالت ہوئی اس کا نہ پوچھئے۔ دس بارہ دن اسپتال میں موت و زیست کی کش مکش میں کاٹے۔ مسلسل گلوکوز لگتا رہا۔ شکر کی سطح پچاس تک جا پہنچی۔”
میں نے کہا، “بابا! اللہ تعالٰی آپ کو زندہ سلامت رکھے۔ کسی دن میرے پاس آئیں تو رپورٹیں ساتھ لیتے آئیے۔” بابے نے اچھا کہہ کر ٹیلی فون بند کر دیا۔
دس بارہ دن گزرے تو بابا میرے پاس آیا۔ چہرے سے کافی کمزور لگ رہا تھا۔ میں نے رپورٹوں میں مختلف تاریخوں کو شکر کی سطح دیکھی۔ فاسٹنگ اسی تا نوے تھی اور رینڈم ۱۳۰ سے ۱۵۰ تک۔ میں نے کہا، “بابا رپورٹیں تو ساری کی ساری ٹھیک ہیں۔”
کہنے لگا، “اس میں کل کی رپورٹیں بھی شامل ہیں جو اسپتال سے فارغ ہونے کے بیس دن بعد کی ہیں۔”
میں نے پوچھا، “بابا میٹھا کھاتے ہو یا پرہیز جاری ہے؟”
بابے نے کہا، “حکیم صاحب!میں نے پچھلے چالیس برسوں کی کسریں نکال دیں۔ خوب جی بھر کر میٹھا کھایا۔ آپ جلیبی منگوائیں یا برفی، چائے میں چاہے چار چمچ چینی ڈال کر مجھے پلا دیں، پھر میری شکر کی سطح کا معاینہ کریں، انشاء اللہ ٹھیک ہی رپورٹ آئے گی۔”
میں نے بابے سے کہا، “خوش فہمی میں مارے نہ ضانا۔ پرہیز بہت ضروری ہے۔”
بابا کہنے لگا، “چالیس برس میں نے تھوڑا پرہیز کیا ہے۔ اب تو میں بالکل پرہیز نہ کروں گا۔”
بابا جانے لگا تو میں نے ایک ہی بات کہی، “اپنی شکر کی سطح دیکھتے رہنا۔ اس میں غفلت نہ برتنا۔”
اس نے ہاں میں جواب دیا اور چلا گیا۔ پھر وہ وقتاً فوقتاً آتا رہا اور میں اس سے مرض کے متعلق پوچھتا رہا۔ ایک دفعہ لاہور کے معروف ماہر ذیابیطس، پروفیسر ڈاکٹر محمود عالم میرے پاس آئے۔ انہوں نے ذیابیطس اور اس کا علاج کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ باتوں ہی باتوں میں میں نے ان سے پوچھا کہ ایلوپیتھی علاج سے ذیابیطس کے کسی مریض کو بالکل صحت یاب ہوتے دیکھا گیا ہے؟ وہ فرمانے لگے، “میں نے کسی بھی علاج سے ذیابیطس کے کسی مریض کو کبھی صحت یاب ہوتے نہیں دیکھا۔”
میں نے کہا، “طب مشرق میں کم از کم ایسی ایک مثال تو موجود ہے۔”
کہنے لگے، “میں تسلیم نہیں کرتا۔”
تب میں نے بابا محمد حسین کی صحت یابی کی صورتحال ان کے سامنے بیان کی اور کہا، “ایک سال سے میں انہیں بالکل ٹھیک دیکھ رہا ہوں۔” مگر انہوں نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔
ابھی ڈاکٹر صاحب میرے پاس تشریف فرما تھے کہ اتفاق سے بابا محمد حسین آ گیا۔ میں نے کہا، “ڈاکٹر صاحب! بابا جی آ گئے ہیں، آپ ان سے خود بات کر کے ہر طرح تسلی کر لیں۔”
ڈاکٹر صاحب نے پھر ایک ایک بات ان سے پوچھی۔ بعد میں مجھے کہنے لگے، “میری زندگی میں یہ پہلا کیس ہے جو ٹھیک ہوا ہے۔ لیکن کیا پتہ رپورٹیں غلط ہوں۔ میں انہیں لاہور کی تین چوٹی کی لیبارٹریوں کے پتہ دیتا ہوں۔ یہ وہاں سے کل ٹسٹ کروا لیں۔ میں پرسوں پھر آؤں گا۔ انہیں بھی کہیں کہ وہ رپورٹیں لے کر آ جائیں۔”
دو دن بعد دونوں حضرات پھر اکٹھے ہوئے اور رپورٹیں دیکھی گئیں۔ فاسٹنگ ۹۵ اور رینڈم ۱۴۰ تا ۱۵۰ تھی۔ ڈاکٹر محمود عالم بہت حیران ہوئے کہ ایک انسان کو ذیابیطس چمٹا اور پھر اتر بھی گیا۔
ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد میں نے بابا محمد حسین سے پوچھا، “ٹھیک ہو جانے کے بعد بھی کبھی شیخ صاحب کے پاس گئے ہو؟”
کہنے لگا، “ہاں دو تین دفعہ گیا ہوں۔”
میں نے کہا، “کیا یہ ممکن ہے کہ تم روزانہ اس کے پاس جا سکو؟”
بابا کہنے لگا، “کیوں نہیں، میں تو سارا دن فارغ ہی ہوتا ہوں۔ لیکن آپ چاہتے کیا ہیں؟”
میں نے کہا، “اس سے دوستی گانٹھو اور نسخہ حاصل کرو۔”
بابے نے کہا، “میں کل ہی اس کے پاس جاتا ہوں۔ کبھی تو نسخہ دے ہی دے گا۔”
اس کے بعد بابا شیخ کے پاس جانے لگا۔ دو تین گھنٹے اس کے پاس بیٹھتا اور واپس آ جاتا۔ مہینہ اسی طرح گزر گیا۔ ایک دفعہ شیخ صاحب نے اس سے پوچھ، “تم میرے پاس کیوں آتے ہو؟” بابے نے اپنا مقصد بیان کیا۔
لیکن شیخ صاحب نے یہ کہہ کر نسخہ دینے سے انکار کر دیا کہ “جتنی ضرورت ہو مجھے لے مگر میں نسخہ نہیں بتا سکتا۔”
مگر بابا مایوس نہیں ہوا۔ وہ مسلسل اس کے پاس جاتا رہا۔ گاہے بگاہے اس سے نسخے کا تقاضا بھی کر دیتا۔
کئی مہینے گزرنے کے بعد شیخ نے بابے سے کہا، “دو شرطوں پر آپ کو نسخہ بتانے کے لیے تیار ہوں۔”
اس نے پوچھا، “وہ کون سی شرطیں ہیں؟”
شیخ نے کہا، “پہلی شرط تو یہ ہے کہ کسی سے دوا کی قیمت نہیں لینی۔”
بابے نے ےکہا، “مجھے منظور ہے۔”
“دوسری شرط یہ ہے کہ نسخہ سلیمانی والوں کو نہیں بتانا۔”
بابے نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد یہ شرط بھی منظور کر لی اور اس سے نسخہ حاصل کر لیا۔
اس رات عشاء سے فارغ ہو کر میں گھر بیٹھا ہوا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی، “میں محمد حسین بول رہا ہوں۔ کاغذ پنسل آپ کے پاس موجود ہے؟”
میں نے کہا، “ہاں! سب کچھ موجود ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟”
کہنے لگا، “حکیم صاحب! نسخہ لکھیں ۔۔۔ ۔۔ ذیابیطس دور کرنے کا نسخہ جس سے کہ میں تندرست ہوا ہوں۔”
میں نے کاغذ قلم پکڑ کر نسخہ لکھ لیا۔ کہنے لگا، “اگر زندگی رہی تو کل آؤں گا۔ جو نسخہ انہوں نے مجھے لکھوایا اس میں تین چیزیں شامل ہیں : اندرائن جسے عربی میں حنظل اور پنجابی میں کوڑتمہ کہتے ہیں۔ تخم سرس جسے پنجابی میں شرینہہ کے بیج کہتے ہیں اور گوند کیکر یا گوند پھلاہی۔ ان تینوں کو ہم وزن باریک پیس کر ایک یا دو ماشے حلوے کے ساتھ کھائیں۔ تینوں چیزیں بلا شبہ ذیابیطس کے لیے مفید ہیں۔”
میں نے کہا، “بابا! تم نے مجھے نسخہ نہ بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ پھر بتا کیوں دیا؟”
کہنے لگا، “میں نے اس کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ آپ کسی قسم کی فکر نہ کریں۔”
ایک دفعہ میں مطب میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دبلا پتلا چھوٹے قد کا بوڑھا آدمی داخل ہوا۔ اس نے مجھ سے پوچھا، “مجھے پہچانا۔”
میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ کچھ اس کی آواز سے پہچانا اور کہا، “نظام دین ہو؟”
اس نے کہا، “ہاں۔”
میں نے پوچھا بہت کمزور ہو گئے ہو؟”
کہنے لگا، “یار کیا بتاؤں، ذیابیطس نے یہ حال کر دیا ہے۔”
نظام دین ۱۹۶۱ ء میں میٹرک میں میرا ہم جماعت تھا۔ چالیس سال بعد ملاقات ہوئی۔ پہچاننے میں دقت ضرور ہوئی لیکن میں نے پہچان لیا۔ اگلے سال نظام دین پھر آیا۔ حالت پہلے سے کہیں بہتر اور چہرے پر نکھار۔ میں نے پوچھا، “نظام دین، ذیابیطس کا کیا حال ہے؟”
کہنے لگا، “اللہ کے فضل سے اس سے نجات مل گئی۔”
“مگر کیسے؟” میں نے سوال کیا۔
“یار جب میں یہاں سے گیا، تو وہاڑی سے تھوڑا سا آگے میرا حادثہ ہو گیا۔ چوٹیں آئیں لیکن بہت زیادہ نہیں۔ میں اپنے گاؤں جا رہا تھا۔ راستے میں رب راکھا موڑ پر ایک حکیم کا بورڈ نظر آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میری ابتدائی طبی امداد کر دو۔ کہنے لگا، تم ذیابیطس کے مریض ہو۔ جت تک یہ مرض ٹھیک نہیں ہوتا، زخم ٹھیک نہیں ہوں گے۔ میں نے کہا، “ذیابیطس کا علاج بتاؤ۔”
حکیم صاحب کہنے لگے، “یہاں سے تازہ تمے (اندرائن) توڑو۔ ان کی چھوٹی چھوٹی قاشیں کرو۔ ایک سیر تمے ہوں تو ان میں دو سیر چینی ڈالو اور ایک ہفتہ مرتبان میں ڈال کر رکھو۔ وہ گھل جائیں گے۔ اس کے بعد صبح شام ایک ایک چمچ کھاؤ۔ کڑواہٹ تو بہت زیادہ ہو گی لیکن مربہ ختم ہونے سے پہلے تم تندرست ہو جاؤ گے۔”
“میں نے ایسا ہی کیا۔ شروع شروع میں واقعی بے حد کڑواہٹ محسوس ہوئی لیکن میں ڈھیٹ بن کر کھاتا رہا۔ ابھی آدھا مربہ بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ذیابیطس دم دبا کر بھاگ گئی۔ اب میں بالکل تندرست ہو کر تمہارے سامنے بیٹھا ہوں۔”
بابے محمد حسین والا نسخہ میں نے لاہور کے ایک معروف طبیب کو بتایا۔ اس نے اس نسخے میں کلونجی کا اضافہ کر کے اپنی کتاب میں چھاپ دیا جس سے بے شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ یہی نسخہ میں نے اپنے ماموں زاد بھائی حکیم عبد القیوم کو بتایا۔ چند دن پہلے اس سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے، “آپ کے کہنے کے مطابق میں یہ نسخہ دو ماشے کی مقدار میں فی سبیل اللہ دیتا ہوں۔ جتنے مریضوں کو دیا کبھی خطا نہیں گیا۔”
ایک دن ایک دوا ساز کمپنی کا مالک ان کے پاس گیا اور نسخے کا طالب ہوا۔ اس نے ایک لاکھ روپے کی پیشکس کی کہ نسخہ بتا دو اور پیسے لے لو۔ مگر انہوں نے کہا، “میں نے وعدہ کیا ہے کہ نسخہ نہیں بتاؤں گا۔”
حضرات گرامی! آج وہی نسخہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔ امید ہے آپ قدر کریں گے۔ یہ یاد رہے کہ جسے شفا ملے وہ ہمیں مطلع بھی کر دے۔ (اردو ڈائجسٹ)۔